A Timeless voice of Love , Wisdom , and Divine inspiration
محبت، حکمت، اور الہی الہام کی ایک لازوال آواز
1207-1273
مختصر تعارف
Short Introduction
مولانا جلال الدین محمد بلخی رومی (1207ء – 1273ء) اسلامی تصوف کے عظیم صوفی شاعر، فلسفی، اور دانشور تھے۔ ان کی شاعری اور تعلیمات نے دنیا بھر کے لوگوں کو متاثر کیا اور ان کی تحریریں آج بھی محبت، انسان دوستی اور روحانی بیداری کا ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔
Maulana Jalaluddin Muhammad Balkhi Rumi (1207 AD – 1273 AD) was a great Sufi poet, philosopher, and intellectual of Islamic Sufism. His poetry and teachings inspired people around the world and his writings are still considered a source of love, philanthropy and spiritual awakening.
ابتدائی زندگی اور تعلیم
Early life and education
مولانا رومی 30 ستمبر 1207ء کو خراسان کے شہر بلخ (موجودہ افغانستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، بہاء الدین ولد، اپنے زمانے کے ایک مشہور اسلامی عالم اور صوفی بزرگ تھے، جنہیں "سلطان العلما" کہا جاتا تھا۔ رومی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور قرآن، حدیث، فقہ، فلسفہ، اور تصوف میں مہارت حاصل کی۔
1219ء میں منگول حملوں کے باعث ان کا خاندان ہجرت پر مجبور ہوا اور نیشاپور، بغداد، مکہ، دمشق، اور ملطیہ جیسے شہروں سے ہوتا ہوا بالآخر قونیہ (موجودہ ترکی) میں سکونت اختیار کر گیا، جو اس وقت سلجوقی سلطنت کا ایک اہم علمی اور ثقافتی مرکز تھا۔
Maulana Rumi was born on September 30, 1207 in the city of Balkh in Khorasan (now Afghanistan). His father, Bahauddin Walad , was a famous Islamic scholar and Sufi saint of his time, known as "Sultan Ulama". Rumi received his early education from his father and mastered the Qur'an, Hadith, jurisprudence, philosophy, and Sufism.
In 1219, his family was forced to migrate due to the Mongol invasions, passing through cities such as Nishapur, Baghdad, Mecca, Damascus, and Malatya, finally settling in Konya (present-day Turkey), which was an important academic and cultural center of the Seljuk Empire at the time.
Bahauddin Walad ( بہاء الدین ولد )
Balkh in Khorasan (now Afghanistan)
( شہر بلخ (موجودہ افغانستان) )
Seljuk Empire (سلجوقی سلطنت)
Mongol Empire (منگول سلطنت)
تصوف کی طرف رجحان
Tendency towards mysticism
مولانا رومی ابتدا میں ایک روایتی اسلامی عالم اور معلم تھے، مگر ان کی روحانی زندگی میں انقلاب اس وقت آیا جب ان کی ملاقات 1244ء میں حضرت شمس تبریزی سے ہوئی۔
شمس تبریزی سے ملاقات:
شمس تبریزی ایک صوفی درویش اور دریا دلی کی مثال تھے۔ ان کی موجودگی نے رومی کی فکری اور روحانی دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ وہ رسمی مذہبی تعلیمات سے ہٹ کر عشقِ حقیقی، معرفت، اور وحدت الوجود کی راہ پر گامزن ہو گئے۔ شمس کی صحبت میں، رومی نے شاعری، موسیقی، اور رقص (سماع) کے ذریعے اپنے روحانی خیالات کا اظہار کیا-
رومی اور شمس کی قربت سے بعض حلقوں میں حسد پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں شمس تبریزی اچانک قونیہ سے غائب ہو گئے۔ بعض روایات کے مطابق انہیں قتل کر دیا گیا۔ شمس کی جدائی رومی کے لیے انتہائی دردناک تھی اور اسی دکھ نے انہیں ایک عظیم شاعر میں بدل دیا۔
رومی نے اپنے کلام میں شمس تبریزی کے نام کو بار بار دہرایا، اور ان کے اشعار میں عشق، وصال، جدائی، اور خدا کی محبت جیسے تصورات نمایاں ہیں۔ ان کی شاعری میں ایک گہری وجدانی کیفیت اور صوفیانہ جوش پایا جاتا ہے۔
Maulana Rumi was initially a traditional Islamic scholar and teacher, but the revolution in his spiritual life came when he met Hazrat Shams Tabrizi in 1244 AD.
Meeting with Shams Tabrizi:
Shams Tabrizi was a Sufi dervish and an example of Darya Dali. His presence completely changed the intellectual and spiritual world of Rumi. He moved away from formal religious teachings to the path of true love, knowledge, and oneness. In the company of Shams, Rumi expressed his spiritual ideas through poetry, music, and dance (sama').
The separation and poetry of Shams:
The closeness of Rumi and Shams led to jealousy in some quarters, resulting in Shams Tabrizi's sudden disappearance from Konya. According to some traditions, he was killed. The separation of Shams was very painful for Rumi and this sorrow turned him into a great poet.
Rumi repeats Shams Tabrizi's name repeatedly in his poetry, and his poems feature concepts such as love, wasal, separation, and the love of God. There is a deep intuition and mystical fervor in his poetry.
Hazrat Shams Tabrizi (حضرت شمس تبریزی)
KONYA (The city of Rumi) ( (رومی کا شہر) قونیہ )
مشہور تصانیف
Famous works
مولانا رومی کی سب سے مشہور کتاب "مثنوی معنوی" ہے، جو صوفی ادب کا ایک لازوال شاہکار مانی جاتی ہے۔
1. مثنوی معنوی:
مثنوی چھ جلدوں پر مشتمل ایک شاہکار ہے، جس میں تمثیلوں، حکایات، اور صوفیانہ تعلیمات کے ذریعے عشقِ الٰہی، معرفت، اور خودی کے فلسفے کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو فارسی ادب میں "قرآن در زبانِ پہلوی" (فارسی زبان میں قرآن) بھی کہا جاتا ہے۔
2. دیوانِ شمس تبریزی:
یہ مولانا رومی کا ایک اور عظیم شعری مجموعہ ہے، جو ان کی غزلوں پر مشتمل ہے۔ اس میں عشق، روحانی وجد، اور خدا سے قربت کا بیان ملتا ہے۔
3. فیہ ما فیہ:
یہ رومی کی نثر میں لکھی گئی تصنیف ہے، جس میں ان کے مواعظ، اقوال، اور صوفیانہ خیالات بیان کیے گئے ہیں۔
یہ رومی کے خطوط کا مجموعہ ہے، جس میں انہوں نے اپنے شاگردوں، دوستوں، اور عقیدت مندوں کو نصیحتیں اور ہدایات دی ہیں۔
Maulana Rumi's most famous book is "Musnawi Manawi", which is considered a timeless masterpiece of Sufi literature.
1. Masnavi Meaning:
The Masnavi is a six-volume masterpiece that expounds the philosophy of divine love, knowledge, and self through parables, anecdotes, and mystical teachings. This book is also called "Qur'an in Persian language" (Qur'an in Persian language) in Persian literature.
2. Diwan-e-Shams Tabrizi:
This is another great poetry collection of Maulana Rumi, which consists of his ghazals. It describes love, spiritual ecstasy, and closeness to God.
3. Phih Ma Phih:
This is Rumi's prose work, which describes his sermons, sayings, and mystical ideas.
4. Schools:
It is a collection of letters from Romi, in which he gave advice and instructions to his disciples, friends, and devotees.
روحانی تعلیمات اور فلسفہ
Spiritual teachings and philosophy
مولانا رومی کی تعلیمات محبت، انسانیت، اور خدا سے قربت کے گرد گھومتی ہیں۔ ان کے فلسفے میں کچھ نمایاں نکات یہ ہیں:
عشقِ الٰہی: رومی کے نزدیک خدا کی محبت ہر چیز سے بڑھ کر ہے، اور حقیقی کامیابی عشقِ الٰہی میں فنا ہو جانے میں ہے۔
وحدت الوجود: ان کا ماننا تھا کہ کائنات کی ہر چیز ایک ہی حقیقت (خدا) کا مظہر ہے۔
خودی اور معرفت: انہوں نے انسان کو اپنے اندر جھانکنے اور اپنی حقیقت کو پہچاننے کی تلقین کی۔
رواداری اور امن: رومی نے تمام مذاہب اور عقائد کو ایک نکتہ نظر سے دیکھنے کا درس دیا اور ہر انسان کو محبت اور امن کا پیغام دیا۔
ان کا مشہور شعر اسی تعلیم کا عکاس ہے:
"بیا بیا ہر آنچہ ہستی بیا"
(آؤ، آؤ، جو بھی ہو آؤ)
Maulana Rumi's teachings revolve around love, humanity, and closeness to God. Some of the salient points in his philosophy are:
Ishq-e-Ilahi: For Rumi, the love of God is above all else, and true success lies in perishing in Ishq-i-Ilahi.
Wahdat-ul-Wujud: He believed that everything in the universe is a manifestation of one reality (God).
Self and Knowledge: He exhorted man to look within himself and recognize his own reality.
Tolerance and Peace: Rumi taught to look at all religions and beliefs from one point of view and gave a message of love and peace to every human being.
His famous poem reflects this teaching:
"Biya Biya Har Ancha Hasti Biya"
(Come, come, come whatever)
وفات اور میراث
Death and legacy
مولانا رومی 17 دسمبر 1273ء کو قونیہ میں وفات پا گئے۔ ان کی وفات کے دن کو "شبِ عروس" (وصال کی رات) کہا جاتا ہے، کیونکہ ان کے نزدیک موت دراصل خدا سے ملاقات کا ذریعہ تھی۔
ان کا مزار آج بھی قونیہ میں واقع ہے اور لاکھوں عقیدت مند ہر سال ان کے عرس میں شرکت کے لیے وہاں آتے ہیں۔
Maulana Rumi died on December 17, 1273 in Konya. The day of his death is called "Shab-i-Aroos" (night of departure), because for him death was actually a means of meeting God.
His Tomb is still located in Konya and millions of devotees come there every year to attend his Urs.
TOMB OF MOLANA RUMI (مزار مولانا رومی کا مزار)
مولانا رومی کی عالمی مقبولیت
Maulana Rumi's global popularity
مولانا رومی کی شاعری کا ترجمہ دنیا کی متعدد زبانوں میں ہو چکا ہے اور وہ مشرق و مغرب میں یکساں مقبول ہیں۔ ان کے کلام کو مغربی فلسفیوں، شعرا، اور مفکرین نے بھی سراہا ہے۔
آج بھی ان کے الفاظ لاکھوں لوگوں کے لیے روشنی کا مینار ہیں:
"عشق سے ہستی ہے، عشق ہی زندگی ہے۔"